سورة الانعام - آیت 25

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ۖ وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو آپ کی بات [٢٨] کان لگا کر سنتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں کہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے۔ وہ تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے حد یہ ہے کہ وہ جب آپ کے پاس آکر آپ سے جھگڑا کرتے ہیں تو کافر لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ''یہ تو محض پہلے لوگوں کی داستانیں [٢٩] ہیں''

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مشرکوں کے دنیاوی رویے کا بیان ہے کہ حق سے دشمنی کی وجہ سے ان کے دلوں پر ایسے غلاف ہیں جو انھیں کچھ سمجھنے نہیں دیتے یعنی مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں اس لیے بے فائدہ ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردے اور کانوں میں ڈاٹ ڈالدیے ہیں جس کی وجہ ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان کے کان حق سننے سے عاجز ہیں۔ اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سناتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ ہمیں کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں: جب کوئی اپنے آپ کو حق سے دور کرلیتا ہے پھر وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔