سورة البقرة - آیت 71

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

موسی نے کہا کہ!’’وہ گائے ایسی ہونی چاہیے جس سے خدمت نہ لی جاتی ہو جو نہ تو زمین جوتتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی پلاتی ہو، صحیح و سالم ہو اور اس میں کوئی داغ نہ ہو۔‘‘ وہ کہنے لگے : ’’موسیٰ ! اب تم نے ٹھیک ٹھیک پتہ بتلا دیا۔‘‘ (اتنی لیت و لعل کے بعد) انہوں نے گائے ذبح کی جبکہ معلوم ایسا ہو رہا تھا کہ وہ یہ کام نہیں کریں گے۔[٨٥]

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

چونکہ ان لوگوں کو گؤ پرستی کا مرض لگ چکا تھا۔ اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں۔ ان کے ایمان کا امتحان ہی اس طرح ہوسکتا تھا کہ اگر وہ واقعی اب خدا کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانتے تو اس سے پہلے وہ جسے بت (یعنی بچھڑا) سمجھتے رہے ہیں اُسے اپنے ہاتھ سے توڑیں بلاشبہ یہ امتحان بہت کڑا تھا ۔ دلوں میں ایمان پوری طرح اترا ہوا نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور تفصیلات پوچھتے رہے حالانکہ اگر وہ صرف اللہ کا حکم مان لیتے تو کوئی سی گائے بھی ذبح کر سکتے تھے۔ آخر کار اسی خاص قسم کی گائے جس کا رنگ سنہرا ہو۔ اور جس کی وہ اس زمانے میں پرستش کرتے تھے اس کی نشاندہی کردی گئی کہ اس قسم کی گائے ذبح کرو ۔لیکن بعض روایات میں ہے کہ انھوں نے اس گائے کے وزن کے برابر سونا چاندی دیکر اسے خریدا اور ذبح کیا۔