سورة المآئدہ - آیت 116

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ’’اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ [١٦٦] کو الٰہ بنا لو؟‘‘ حضرت عیسیٰ جواب دیں گے: اے اللہ تو پاک ہے، میں [١٦٧] ایسی بات کیونکر کہہ سکتا ہوں جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو تجھے ضرور اس کا علم ہوتا۔ کیونکہ جو کچھ میرے دل میں ہے وہ تو تو جانتا ہے لیکن جو تیرے دل میں ہے وہ میں نہیں جان سکتا۔ تو تو چھپی ہوئی باتوں کو خوب جاننے والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

پوری عیسائیت کی کہانی کا جواب اس ایک آیت میں ہے یہ رب کا آسمانی کلام ہے جزا و سزا کے معاملات طے ہورہے ہیں۔ یہ سوال قیامت کے دن ہوگا اور اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے احسانات یاد دلانے کے بعد یہ پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کی بجائے مجھے اور میری ماں کو الٰہ بنا لینا اور اپنی تمام حاجات ہم سے طلب کرنا، کیا میرے احسانات کا یہی بدلہ تھا۔ حضرت عیسیٰ نہایت عاجزی سے جواب دیں گے کہ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جو مجھے سزا وار ہی نہ تھی اور تو تو چھپی، علانیہ سب باتوں کو جانتا ہے اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو یقیناً تیرے علم میں ہوتی۔یہ مکالمہ دراصل حضرت عیسیٰ کے ان پیروکاروں کی سرزنش کے لیے بیان کیاجارہا ہے جنھوں نے آپ کے بعد آپ کو اور آپ کی والدہ کو الٰہ بنا لیا تھا تاکہ ان کے خلاف ان کے رسول کی شہادت قائم ہوجائے۔ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا: حضرت عیسیٰ کتنے واضح الفاظ میں اپنی بابت علم غیب کی نفی فرمارہے ہیں کہ تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے۔ اللہ عظیم ہے اور بندہ حقیر ہے چاہے وہ نبی ہو۔