سورة المآئدہ - آیت 95

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ مارو۔ اور جس نے دیدہ دانستہ شکار مارا تو اس کا بدلہ مویشیوں میں سے اسی شکار [١٤٢] کے ہم پلہ جانور ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں اور یہ جانور کعبہ لے جاکر قربانی کیا جائے۔ یا چند مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اس کے برابر روزے رکھنا اس کا کفارہ ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ اپنے کام کی سزا چکھے۔ جو کچھ اس حکم سے پہلے ہوچکا اسے اللہ نے معاف کردیا اور جو اب اس کا اعادہ کرے گا اللہ اس سے بدلہ لے گا اور اللہ تعالیٰ[١٤٢۔ ١] غالب ہے بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ ان خوش نصیبوں سے خطاب فرمارہے ہیں جنھوں نے اللہ کو پہچان لیا مان لیا کہ حالت احرام میں شکار نہیں کرنا، لیکن جان بوجھ کر شکار کیا تو اس پر فدیہ دینا ہوگا۔ غلطی سے شکار کرنے پر کچھ نہیں۔ مساوی جانور سے مراد: قدوقامت میں مساوی ہونا ہے۔ مثلاً اگر ہرن کو قتل کیا تو اس کی مثل (مساوی) بکری ہے گائے کی مثل نیل گائے ہے البتہ جس جانور کا مثل نہ مل سکے وہاں اس کی قیمت بطور فدیہ مکہ پہنچادی جائے گی۔ اور یہ فیصلہ دوعادل آدمی کریں گے۔ اس قیمت سے غلہ خرید کر مکہ کے مساکین میں ایک مُدّکے حساب سے تقسیم کردیا جائے گا۔ ہرن کے بدلے بکری کو ذبح کرکے مکہ میں تقسیم کیا جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک قول کے مطابق اگر جانور کی مثل جانور یعنی ہرن کے مثل بکری نہ ملے تو چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے یا تین روزے رکھنے ہیں۔ یہ سزا پہلی دفعہ شکار پر ہے اگر دوبارہ کرے گا تو اللہ بدلہ لے گا۔ بارہ سنگھا کے مقابل گائے ہے یا بیس مساکین کو کھانا یا بیس روزے رکھیں۔ شتر مرغ یا گورخر کے مقابل اونٹ ہے نہ ملنے کی صورت میں تیس مساکین کو کھانا یا تیس دن کے روزے رکھنے ہیں۔ (ابن کثیر: ۲/۱۷۹)