سورة المآئدہ - آیت 82

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو لوگ ایمان لائے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ان سے عداوت رکھنے میں لوگوں میں سب سے بڑھ کر یہودی اور مشرکین ہیں اور جن لوگوں نے کہا تھا کہ ’’ہم نصاریٰ ہیں‘‘ انہیں آپ مسلمانوں سے محبت [١٢٨] رکھنے میں قریب تر پائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور زاہد پائے جاتے ہیں اور وہ متکبر نہیں ہوتے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہود و نصاریٰ کے کردار کا تقابل: عیسائیوں کی مسلمانوں سے کم تر دشمنی اور قریب تر دوستی کی تین وجوہات بیان فرمائیں: (۱)ان میں عالم لوگ موجود ہیں۔ (۲)زاہد پائے جاتے ہیں۔ (۳) یہ عیسائی لوگ متکبر نہیں ہوتے۔ان کے مقابلہ میں یہود کو دیکھیں۔ (۱)یہودی علماء آیات کو بیچنے والے۔ (۲)آیات اور حق کو چھپانے والے۔ (۳) سازشیں کرنیوالے، (۴) سود خور اور حرام خور۔ (۵) ان میں مشائخ نام کو نہیں، ہر جائز و ناجائز ذریعہ سے دولت حاصل کرتے تھے، انہی وجوہات کی بنا پر یہ انتہائی سنگدل، بخیل اور متکبر بن گئے تھے۔ ان کے مقابلہ میں ہر قل شہنشاہ روم اور نجاشی کے کردار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہود کے مقابلہ میں یہ مسلمانوں اور اسلام کے کس قدر قریب تھے۔