إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
بلاشبہ ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق اللہ کے فرمانبردار نبی ان لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ جو یہودی [٨٠] بن گئے تھے اور خدا پرست اور علماء بھی (اسی تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے) کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کی حفاظت کے ذمہ دار بنائے گئے تھے اور وہ اس کے (حق ہونے کی) شہادت بھی دیتے تھے لہٰذا تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھی سے ڈرو اور میری آیات کو حقیر سے معاوضہ کی خاطر [٨١] بیچ نہ کھاؤ۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں
تورات ہدایت و نور ہے: تورات میں عقیدے کی رہنمائی ہے طریقہ زندگی کی رہنمائی، مراسم عبودیت کی تفصیلات ہیں قانون نظام زندگی کی تشریح ہے۔ تورات کے ذریعے اللہ کے پیغمبر حکومت کرتے تھے۔ لوگوں کو انصاف ملتا تھا، تورات صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لیے روشنی کا مینار تھی۔ تورات سے فیصلہ کرتے تھے نبی، علماء اور درویش: سب کی زندگی میں کتاب کی بہت اہمیت تھی اور وہ اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے یعنی تمام پیغمبروں کا ایک ہی دین رہا ہے اسلام جس کی دعوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے تھے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس میں کسی کو شریک نہ کیا جائے، ہرنبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید و اخلاص پیش کی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: ۲۵) ’’ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔‘‘ اور فرمایا: آپ کے لیے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے پہلے دیگر انبیاء کے لیے کیا تھا۔ (جیسا کہ سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۱۳ میں یہ مضمون مذکور ہے) فرمانبردار انبیاء خود بھی عمل پیرا تھے اور یہودیوں کے تنازعات کے فیصلے بھی اسی کتاب اللہ کے مطابق کیا کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ ان کے سپرد کر رکھا تھا علمی اور عملی دونوں طرح سے حفاظت۔ علمی حفاظت سے مراد: تورات کے نہ تو الفاظ میں ردو بدل کیا جائے اور نہ اس کی آیات کو غلط مفہوم ہی دیا جائے اور عملی حفاظت سے مراد کہ: اس پر ٹھیک طرح سے عمل کیا جائے اور فیصلے اسی کے مطابق کیے جائیں، لیکن بعد میں جب نا خلف علماء پیدا ہوئے تو انھوں نے تحریف معنوی بھی کی اور لفظی بھی کی، بعض آیات کو چھپایا (مثلاً آیتِ رجم) اور بعض اضافے کتاب میں شامل کردیے اس طرح کتاب اللہ کو بیچ کر کھانے لگے۔ کفر کرنیوالے: (۱) جو کوئی فیصلہ نہ کرے اسکے ساتھ جو ہم نے نازل کیا ہے تو یہی کفر کرنیوالے ہیں آج کے دور میں بھی حکمران اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے۔ (۲) یہ کہنا کہ یہ قانون آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ (۳) سود کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی، حق کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرلی کتمان حق ہوگیا، مفاد پرست، نفس پرست اسلامی نظام زندگی میں محتاط زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ بے حیائی کے کاروبار بند ہوجائیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے علماء اور درویشوں کو اس کام کے لیے منتخب کیا کہ وہ اللہ کے احکامات کی حفاظت کریں اور کسی سے نہ ڈریں بلکہ اللہ سے ہی ڈریں ۔