يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
لوگ آپ سے کلالہ [٢٣٣] کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ :''اللہ تمہیں اس بارے میں یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص لاولد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہی ہو تو اسے ترکہ کا [٢٣٤] نصف ملے گا۔ اور اگر کلالہ عورت ہو (یعنی لاولد ہو) تو اس کا بھائی اس کا وارث ہوگا۔ اور اگر بہنیں دو ہوں تو ان کو ترکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور کئی بہن بھائی یعنی مرد اور عورتیں (ملے جلے ہوں) تو مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ اللہ تمہارے لیے یہ وضاحت اس لیے کرتا ہے کہ تم بھٹکتے [٢٣٥] نہ پھرو۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ’’سورۂ براء ت‘‘ ہے اور سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت ’’ يَسْتَفْتُوْنَكَ۠ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ ‘‘ ہے۔ (بخاری: ۴۶۰۵، مسلم: ۱۱/ ۱۶۱۸) کلالہ کی میراث کی تقسیم: اولاد تین قسم کی ہوتی ہے (۱) سگے بہن بھائی جن کے ماں باپ ایک ہوں۔ (۲) سوتیلے جن کا باپ تو ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں، (۳) ماں جائے جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ سورۂ نساء ہی کی آیت نمبر ۱۲ میں کلالہ کی میراث کے جو احکام بیان ہوئے تھے۔ وہ ماں، بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اگر کلالہ کے حقیقی بہن بھائی بھی ہوں اور سوتیلے بھی، ایسی صورت میں سوتیلے بہن بھائی میراث سے محروم رہیں گے، اور اگر حقیقی نہ ہو تو پھر میراث سوتیلوں میں تقسیم ہوگی۔ اگر ایک بہن بھائی ہو تو آدھا حصہ ملے گا دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا۔ اور اگر صرف بھائی ہو تو وہ سارے ترکہ کا مالک ہوگا۔ اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو دو حصے اور عورت کو ایک حصہ ملے گا۔ سوال :اگر کلالہ عورت کا مردنہ ہو یا کلالہ مرد کی عورت نہ ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہو تو آدھا حصہ تو اس کو مل گیا باقی حصہ کسے ملے گا؟ سوال:اُدھار کے طور پر بہن کو بھی دیا جاسکتا ہے اور دوسرے دور کے رشتہ داروں میں مثلاً ماموں، پھوپھی وغیرہ یا ان کی اولاد موجود ہو تو انھیں ملے گا۔ اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو بقایا آدھا حصہ بیت المال میں جمع کرایا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کلالہ کی میراث کی تقسیم کے بعض پہلوؤں میں جو پریشانی ہوتی تھی اس کا حل اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے ۔ لہٰذا اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی مسئلہ پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم از خود اس کا جواب دینے کی بجائے وحی الٰہی کا انتظار کرتے رہتے تھے۔