مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ
اس وسوسہ [٢] ڈالنے والے کے شر سے جو (وسوسہ ڈال کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے
شیطان انسان كا نفس بھی ہوتا ہے جو وسوسے ڈالتا ہے: الجنة: سے مراد جن مخلوق ہے۔ دوسرے انسانوں میں سے بھی شیطان ہوتے ہیں جو شفقت والے کے روپ میں انسانوں كو گمراہی كی ترغیب دیتے ہیں۔ بعض كہتے ہیں كہ شیطان جن كو گمراہ كرتا ہے۔ ان كی دو قسمیں ہیں یعنی شیطان انسانوں كو بھی گمراہ كرتا ہے اور جنات كو بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایك واقعہ منقول ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتكاف میں تھے اس دوران ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا آپ كے پاس رات كے وقت آئیں، جب واپس جانے لگیں تو حضور بھی انہیں چھوڑنے كے لیے ساتھ چلے۔ راستے میں دو انصاری صحابہ مل گئے جو آپ كو بیوی صاحبہ کو ساتھ دیكھ كر جلدی چل دئیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! نے انہیں آواز دے كر ٹھہرایا اور فرمایا: سنو! میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حيي رضی اللہ عنہا ہیں، انھوں نے کہا: سبحان اللہ! یا رسول اللہ! اس فرمان كی ضرورت ہی كیا تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان كی رگوں میں خون كی طرح دوڑتا ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا كہ كہیں وہ تمہارے دلوں میں كوئی شبہ نہ ڈال دے۔ (بخاری: ۲۰۳۵، مسلم: ۲۱۷۵) معوذات سے دم جھاڑ كرنا مسنون ہے: سورۃ الفلق، سورئہ الناس كو معوذتین كہتے ہیں اور اگر ان كے ساتھ سورۂ اخلاص كو بھی ملا لیا جائے تو انھیں معوذات كہتے ہیں، آپ كا معمول تھا كہ اكثر یہ سورتیں پڑھ كر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونكتے پھر اپنے چہرے اور جسم پر ہاتھوں كو پھیرا كرتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرض الموت میں معوذات پڑھ كر اپنے اوپر پھونكتے، پھر جب آپ كی بیماری میں شدت ہوئی تو میں معوذات پڑھ كر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھونكتی اور اپنے ہاتھ كی بجائے بركت كی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی كا ہاتھ آپ كے جسم پر پھراتی۔ (بخاری: ۵۰۱۶) تعویذ لكھ كر پلانا یا لٹكانا سب ناجائز اور بدعت ہے: واضح رہے كہ دم جھاڑ كا مسنون طریقہ یہی ہے كہ قرآن كی كوئی آیت یا آیات یا مسنون دعائیں پڑھ كر مریض پر دم كر دیا جائے۔ اس كے علاوہ جتنے طریقے آج كل رائج میں مثلاً كچھ عبارت لكھ كر یا خانے بنا كر اس میں بندسے لكھ كر تعویذ بنا كر گلے میں لٹكانا یا گھول كر پانی پلانا یا بازو یا ران پر باندھنا سب ناجائز ہیں، اگر وہ قرآنی آیات یا مسنون دعائیں بھی ہوں کہ جن میں شرك كا شائبہ تك نہ ہو، تب بھی ایسا کرنا خلاف سنت، بدعت اور ناجائز ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تعویذ لكھنے اور لكھوانے كو جائز اور اچھا سمجھتے تو اس دور میں بھی لكھوا سكتے تھے اور اس میں كوئی امر مانع نہ تھا۔ لہٰذا یسے سب طریقہ نا جائز اور خلاف سنت اور بدعت كی تعریف میں داخل ہوتے ہیں۔