إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
بلاشبہ انسان گھاٹے [٢] میں ہے
بلا شبہ انسان گھاٹے میں ہے: اس آیت كے مختلف مفہوم ہیں: (۱) مال میں كمی واقع ہونا یا كسی سودے میں نفع كے بجائے نقصان ہو جانا۔ اب اگر زمانہ مراد لیا جائے تو زمانے كی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے كہ انسان انفرادی طور پر بھی اور بحیثیت مجموعی بھی ہمیشہ گھاٹے میں رہا ہے۔ مگر اس گھاٹے سے وہ لوگ بچ سكے ہیں جن میں یہ چار صفات پائی جائیں۔ اگر عصر سے مراد گزرنے والا زمانہ لیا جائے تو اس سے مراد ہر انسان كی مدت عمر ہوگی جو اسے اس دنیا میں بطور امتحان عمل كے لیے دی گئی ہے جو بڑی تیزی سے گزر رہی ہے اور انسان اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ ایك بزرگ كہتے ہیں كہ میں نے سورۃ العصر كا مطلب ایك برف فروش سے سمجھا جو یہ صدا لگا رہا تھا: ’’اس شخص پر رحم كرو جس كا سرمایہ دم بہ دم پگھل كر ضائع ہوتا جا رہا ہے اور یہ خسارہ اخروی خسارہ ہے۔