وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا
لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ان کے بارے میں اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے اور اس بارے میں بھی جو یتیم عورتوں سے متعلق اس کتاب میں [١٦٦] پہلے سے تمہیں سنائے جاچکے ہیں جن کے مقررہ حقوق تو تم دیتے نہیں (میراث وغیرہ) اور ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو اور ان بچوں [١٦٧] کے بارے میں بھی جو ناتواں ہیں، نیز اللہ تمہیں یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو اور جو بھلائی کا کام تم کرو گے، اللہ یقینا اسے خوب جانتا ہے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان یتیم لڑکیوں کا ذکر کیا ہے جن کو تم پسند نہیں کرتے تو ان سے مال کی خاطر نکاح نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فتویٰ دیا ہے کہ وہ عورتیں جن کا تم حق نہیں دیتے یعنی حق مہر، اور نہ رغبت رکھتے ہو، مگر مال کی خاطر نکاح کرنا چاہتے ہو، دوسری صورت یعنی بعض دفعہ لڑکی بد صورت ہوتی ہے تو ورثا نہ خود اس سے نکاح کرتے اور نہ کسی دوسری جگہ اس کا نکاح کرتے ہیں، تاکہ کوئی اور شخص اس کی جائیداد میں شریک نہ بنے، اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایا۔ اللہ تعالیٰ یتیموں کے بارے میں بھی فتویٰ دیتا ہے کہ ان کے ساتھ مالی معاملات میں انصاف سے کام لو۔ یتیم بچی صاحب جمال ہو تب بھی اور بد صورت ہو تب بھی دونوں صورتوں میں انصاف کرو۔ دور جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ نہ وہ مرنے والے کی بیوی کو وراثت میں حصہ دیتے اور نہ یتیم لڑکیوں کو، بلکہ وراثت کے حقدار وہ لڑکے سمجھے جاتے تھے جو لڑائی کرنے اور انتقام لینے کے قابل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میراث کی رو سے بیواؤں، یتیم لڑکیوں کے علاوہ چھوٹے بچوں کو بھی وراثت میں حقدار بنادیا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: ’’اے اللہ میں دو کمزوروں کے بارے میں تجھ سے ڈرتا ہوں ایک یتیم اور دوسری عورت۔‘‘(نسائی: ۲۵۸۱)