فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ
مگر انسان کا یہ حال ہے کہ جب اس کا پروردگار اسے آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ : میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی
رزق كی كمی بیشی، دونوں میں انسان كی آزمائش: اللہ تعالیٰ انسان كو دونوں طرح سے آزماتا ہے یعنی مال و دولت كی فراوانی سے بھی كہ انسان اللہ كی نعمتوں كا شكر بجا لاتا ہے؟ اور رزق كی تنگی سے بھی كہ آیا انسان ایسے اوقات میں صبر سے كام لیتا اور اللہ كی رضا پر راضی و مطمئن رہتا ہے یا نہیں، جب انسان پر انعامات كی بارش ہو رہی ہو تو وہ یہ نہیں سمجھتا كہ میں آزمائش میں پڑا ہوا ہوں۔ بلكہ یہ سمجھتا ہے كہ آج كل اللہ مجھ پر بڑا مہربان ہے اور جب تنگی كا دور آتا ہے اس وقت بھی یہ نہیں سمجھتا كہ میری آزمائش كی جا رہی ہے، بلكہ یہ سمجھتا ہے كہ اللہ نے میری توہین كر ڈالی ہے۔ یعنی عزت و ذلت كا اصل معیار پیسہ اور مال و دولت نہیں اعلیٰ اخلاق اور بلند كردار ہوتا ہے اور دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت پر ہوتا ہے۔