فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ
پس آپ نصیحت کرتے رہیے۔ آپ بس نصیحت کرنے والے ہی ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی ذمہ داری صرف یہ ہے كہ: اللہ كا پیغام سب كو پہنچا دیں آپ انہیں ایمان لانے پر مجبور نہیں كر سكتے، پھر جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی باتوں پر كان دھریں، انہیں نصیحت كرتے رہیں اور جو اللہ كی آیات كا مذاق اُڑائیں، ان كے پیچھے نہ پڑیں۔ كیونكہ انہیں زبردستی راہ راست پر لانا آپ كی ذمہ داری نہیں۔ جیسا كہ سورۂ قیامہ ۳۲۔ ۳۱ میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰى۔ وَ لٰكِنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰى﴾ اس نے نہ تو تصدیق كی نہ نماز پڑھی، بلكہ جھٹلایا اور روگردانی كی۔ منہ موڑنے والوں پر اللہ كا دائمی عذاب یعنی جہنم كا عذاب ہوگا اور انہیں بہرحال ہمارے پاس آنا پڑے گا اس وقت ہم ان سے یقیناً حساب لے لیں گے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے كہ ہم انھیں بغیر حساب لیے نہ چھوڑیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض نمازوں میں یہ دعا پڑھتے تھے: اللّٰہُمَّ! حَاسِبًا حِسَابًا یَّسِیْرًا۔ سورت كا موضوع: آخرت كی سزا و جزا ہے جس كا اہل مكہ انكار كر رہے ہیں۔