النَّجْمُ الثَّاقِبُ
وہ ستارہ [٢] ہے چمکتا ہوا
طارق سے كیا مراد ہے: قرآن نے خود واضح كر دیا روشن ستارہ، اور ستارے كو طارق اس لیے كہا جاتا ہے كہ وہ رات كو ہی ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صراحت فرما دی كہ طارق سے مراد عام ستارے بھی نہیں بلكہ شہاب ثاقب ہے۔ شہاب ثاقب كی حقیقت: شہاب ایسے انگارہ كو كہتے ہیں جس میں چمك اور شعلہ دو چیزیں موجود ہوں۔ خواہ یہ آگ كا انگارہ ہو یا آسمان یا فضا میں پایا جائے، اور ثاقب میں تیزی سے آر پار ہو جانے اور آگ كی طرح كی سرخ روشنی كا تصور پایا جاتا ہے۔ جبكہ عام ستاروں كی روشنی چاند كی روشنی كی طرح سفید ہوتی ہے۔ قرآن میں النَّجْمُ الثَّاقِبُ، شہاب ثاقب اور شہاب مبین كے الفاظ آئے ہیں جن سے مراد ایك ہی ہے۔ یعنی (۱) ایك تو وہ تیزی سی فضا میں سفر كر رہا ہے۔ (۲) اس میں چمك موجود ہو۔ (۳) وہ چمك آگ كی طرح سرخ رنگ لیے ہوئے ہے۔ ہم اسے ٹوٹنے والا ستارہ كہتے ہیں۔ ایسے ٹوٹنے والے ستاروں كے متعلق شرعی نقطہ نظریہ ہے كہ جب كوئی شیطان یا جن اوپر ملاء اعلیٰ كی باتیں سننے كے یے جاتا ہے تو اس پر ایسا شعلہ دار ستارہ پھینك كر اسے وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے۔