سورة النسآء - آیت 97

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے [١٣٤] جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں : تم کس حال میں مبتلا تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ''ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔'' فرشتے انہیں جواب میں کہتے ہیں کہ :''کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟'' ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری بازگشت ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ہجرت نہ کرنیوالوں کے لیے وعید: یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مکہ اور اس کے قریب وجوار میں مسلمان تو ہوچکے تھے، لیکن انھوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑ کر اور مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لیے ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جبکہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لیے ہجرت کا تاکیدی حکم مسلمانوں کو دیا جاچکا تھا، اس لیے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا ان کو یہاں ظالم قراردیا گیا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم بتلایا گیا ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حالات و اقعات کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفریا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس وقت ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف پایاگیا۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے۔ جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ کیااللہ کی زمین کشادہ نہ تھی سے مراد ہے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرجائیں جہاں مسلمانوں کی ریاست قائم ہوچکی تھی، دوسرا مسلمانوں کی قوت میں بھی اضافہ ہوتا۔ تیسرا مسلمان اپنے دین پر آزادی سے عمل پیراہوسکتے۔ لیکن جنھوں نے اپنے آپ کو کمزور کیا دراصل وہ کمزوری نہیں بلکہ گھربار اور مال و دولت کی ہوس تھی جس کی وجہ سے وہ ہجرت نہیں کرتے تھے۔ یا بزدل تھے، جبکہ اللہ کے ہاں کمزور ایمان مقبول نہیں۔