سورة النسآء - آیت 92

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے الا یہ کہ غلطی سے [١٢٧] ایسا ہوجائے۔ اور اگر کوئی غلطی سے کسی مومن کو قتل کردے تو وہ ایک مومن غلام آزاد کرے اور اس کے وارثوں کو خون بہا بھی ادا کرے، الا یہ کہ وہ معاف کردیں۔ اور اگر وہ مقتول مومن تو تھا مگر تمہاری دشمن قوم سے تھا تو (اس کا کفارہ) صرف ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اور اگر ایسی قوم سے ہو جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے تو پھر وارثوں کو خون بہا بھی دینا ہوگا اور مومن غلام بھی آزاد کرنا ہوگا، پھر اگر قاتل کو مومن غلام آزاد کرنے کا مقدور نہ ہو یا مل ہی نہ رہا ہو تو متواتر دو ماہ کے روزے رکھے۔ (اس گناہ پر) اللہ سے توبہ کرنے کا یہی طریقہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مذکورہ آیت میں قتل خطا کے احکامات کو بیان کیا گیا ہے اور قتل خطا یہ ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو مگر غلطی سے قتل ہوجائے قتل خطا کے اسباب کئی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً تیریا پتھر مارا تو شکار کو تھا اور وہ کسی مسلمان کو لگ گیا، اندھی گولی سے قتل، لڑائی وغیرہ میں مسلمان کو کافر سمجھ کر قتل کر دیا۔ غرض کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جن میں ارادہ شامل نہ ہو۔ ایسے قتل خطا کا کفارہ اس طرح ادا کرنا ہوگا۔ اگر مقتول کے وارث مسلمان ہیں تو ایک مومن غلام (خواہ مرد ہویا عورت) آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی ادا کرنا ہوگا۔ خون بہا سو اونٹ یا اس کے برابر قیمت ہے جو ورثا کو ادا کرنی ہوگی، معاف بھی کرسکتے ہیں۔ اگر قاتل کو آزاد کرنے کے لیے غلام میسر نہ ہو تو متواتر دو ماہ کے روزے بھی رکھنے ہونگے۔ یعنی دیت اور دو ماہ کے روزے۔ اگر مقتول مومن ہو مگر دشمن قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا کفارہ صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ہے۔ اور اگر غلام میسر نہ آئے تو متواتر دو ماہ کے روزے رکھنے ہونگے، اس کی دیت نہیں ہوگی۔ اگر مومن مقتول کا تعلق کسی معاہد قوم سے ہو تو اس کے وہی احکام ہیں جو پہلی صورت کے ہیں ۔ معافی سے مراد معافی کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔