سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
پھر آپ کو ایک اور قسم کے منافق بھی ملیں گے جو یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی۔ مگر جب بھی انہیں فتنہ کا موقع ملتا ہے تو اس میں کود پڑتے ہیں۔ ایسے منافق اگر تم سے کنارہ کش نہ رہیں نہ ہی صلح کی پیش کش کریں اور نہ آپ نے ہاتھ روکیں تو ایسے لوگوں کو جہاں بھی پاؤ [١٢٦] انہیں گرفتار کرو اور قتل کرو۔ ایسے لوگوں کے لیے ہم نے تمہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے
بدترین منافق: یہ منافقین کے تیسرے گروہ کا ذکر ہے ۔ یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں۔ اپنی قوم کے پاس جاتے تو شرک و بت پرستی کرتے تاکہ وہ انھیں اپنا ہم مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔ لیکن جب داؤ لگ جائے تو اسلام دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ان کی امن پسندی کی تین صورتیں ممکن ہیں۔ (۱) مسلمانوں سے صلح کرلیں۔ (۲) لشکر کفار میں شامل نہ ہوں۔ (۳) اور اگر انھیں مجبوراً کفار کے ساتھ شامل ہونا ہی پڑے تو پھر اپنے ہاتھ روکے رکھیں یعنی عملاً لڑائی میں شامل نہ ہوں۔ اور اگر یہ تینوں باتیں نہ پائی جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ان کی نیتوں میں فتور ہے۔ اور وہ امن پسندی کی آڑ میں مسلمانوں کو دھوکا دے کر انتقام لینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا جب بھی موقعہ ملے ایسے لوگوں کو گرفتار کرو اور قتل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی کھلی چھٹی دی ہے۔