فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
(مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے [١٢١] بارے میں دو گروہ بن گئے۔ حالانکہ اللہ نے انہیں انکے اعمال کی بدولت [١٢٢] اوندھا کردیا ہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے گمراہ کیا ہے، اسے راہ راست پر لے آؤ؟ حالانکہ جسے اللہ گمراہ کردے آپ اس کے لیے کوئی راہ نہیں پاسکتے
منافقوں کے بارے میں دو گروہ: شان نزول: ایک حدیث سے واضح ہوتا ہے، زید بن ثابت صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم اُحد کی طرف نکلے تو منافقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دورچھوڑ کر واپس مدینہ آگئے۔ ان واپس ہونے والوں کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہ کے دو گروہ ہوگئے ایک کہتا تھا کہ ہم ان سے بھی لڑائی کریں گے اور دوسرا کہتا تھا کہ ہم ان سے لڑائی نہ کریں گے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری: ۴۸۸۹) یعنی ان منافقوں نے واپس جاکر اپنی منافقت کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ وہ لڑائی نہ کرنے سے راہ راست پر آجائیں گے تو یہ تمہارے بس میں نہیں، ایسے منافقین واجب القتل ہیں۔ ان کے ارادے یہ ہیں کہ یہ تمہیں بھی اپنے جیسا بنا کے چھوڑیں۔ جسے اللہ گمراہ کردے: یعنی مسلسل کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادے تو انھیں کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا۔