مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو شخص بھلائی کی سفارش کرے گا تو اس سے اسے حصہ ملے گا اور جو برائی کی [١١٨] سفارش کرے گا اس سے بھی وہ حصہ پائے گا اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے
پچھلی آیات میں جہاد کا ذکر ہورہا ہے اس تناظر میں اچھی سفارش سے مراد یہ ہے کہ جو شخص مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے گا اس کے جہاد میں اس کا بھی حصہ ہوگا اور جو منافق حوصلہ شکنی کرتے ہیں تو اس صورت میں ان کا بھی حصہ ہوگا، تاہم اچھائی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا ہر ایک کے لیے عام حکم ہے۔ سفارش کرنے کا اجر: سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی سائل آتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ’’تم سفارش کرو اس کا تمہیں ثواب ملے گا۔‘‘ اور اللہ جو چاہتا ہے اسے نبی کی زبان سے جاری کروا دیتا ہے۔ یا فیصلہ کرادیتا ہے۔ (بخاری: ۱۴۳۲) اسی طرح اگر کوئی شخص چور کی سفارش کرکے اسے چھڑاتا ہے جو پھر چوریاں کرتا تو سفارش کرنے والے کو بھی اس کے گناہ کا حصہ ملتا رہے گا۔