إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ
پرہیزگار [٢٤] (اس دن) سایوں اور چشموں میں ہوں گے
دنیا اور آخرت كے فائدہ كا موازنہ: یہاں متقین كا لفظ مكذبین كے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو لوگ متقی پرہیز گار تھے، خدا كے عبادت گزار تھے، فرائض واجبات كے پابند تھے، خدا كی نافرمانیوں، حرام كاریوں سے بچتے تھے، وہ لوگ جو اللہ كی آیات اور قیامت كے دن كی تصدیق كرتے تھے وہ قیامت كے دن جنتوں میں ہوں گے، جہاں قسم قسم كی نہریں چل رہی ہيں گنہگار سیاہ بدبودار دھوئیں میں گھرے ہوں گے، اور یہ نیك كردار جنتوں كے گھنے ٹھنڈے اور پر كیف سایوں میں بہ آرام لیٹے بیٹھے ہوں گے، سامنے صاف شفاف چشمے پوری روانی سے جاری ہیں، قسم قسم كے پھل، میوے، تركاریاں موجود ہیں جسے جب جی چاہے گا كھائیں نہ روك ٹوك اور نہ كمی اور نقصان كا اندیشہ نہ فنا اور نہ ختم ہونے كا اندیشہ، پھر حوصلہ بڑھانے اور دل كی خوشی كو دو بالا كرنے كے لیے خدائے تعالیٰ كی طرف سے بار بار فرمایا جاتا ہے كہ اے میرے پیارے بندو! یہ تمہارے اعمال كا بدلہ ہے۔ ہم نیکو كار، پرہیزگار اور مخلص انسان كو اسی طرح بھلا بدلہ اور نیك جزا دیتے ہیں۔ یہ ارشاد محض ان كی قدر دانی اور حوصلہ افزائی كے لیے ہوگا، ورنہ حقیقت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے كہ كوئی شخص بھی اپنے اعمال كی وجہ سے جنت میں نہیں جا سكتا بلكہ محض اللہ كے فضل اور اس كی مہربانی كی بنا پر جنت میں جائے گا۔ ’’ہاں جھٹلانے والوں كی تو آج بڑی خرابی ہے۔‘‘