سورة النسآء - آیت 75

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے جبکہ کئی کمزور مرد، عورتیں اور بچے ایسے ہیں جو یہ فریاد کرتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جناب [١٠٤] سے ہمارے لیے کوئی حامی اور مددگار پیدا فرما دے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ظالموں کی بستی سے مراد مکہ ہے۔ ہجرت کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے مسلمان خاص طور پر بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے کافروں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اللہ کی بارگاہ میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ تم ان مجبور لوگوں کو کفار سے نجات دلانے کے لیے جہاد کیوں نہیں کرتے، یہ جہاد کی دوسری قسم ہے جس کی رو سے مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ کافروں کے ظلم و ستم میں گھرے ہوئے مسلمانوں کو بچانے کے لیے جہاد کریں۔ جہاد کی پہلی قسم یہ ہے اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور دین کی نشرو اشاعت ہے۔