قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا
آپ کہہ دیجئے کہ : مجھے وحی [١] کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے (اس قرآن کو) غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم سے) کہا کہ : ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے۔
جنات پر قرآن حكیم كا اثر: اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے كہ اپنی قوم كو اس واقعہ كی اطلاع دو، كہ جنوں نے قرآن كریم سنا، اسے سچا مانا، اور اس پر ایمان لائے اور اس كے مطیع بن گئے۔ چنانچہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے نبی! تم كہو کہ میری طرف وحی كی گئی ہے كہ جنوں كی ایك جماعت نے قرآن سنا اور اپنی قوم میں جا كر خبر دی كہ آج ہم نے عجیب وغریب كتاب سنی، جو سچا اور نجات كا راستہ بتلاتی ہے، ہم تو اسے مان چكے۔ قُرْاٰنًا عَجَبًا : مطلب یہ كہ ہم نے ایسا قرآن سنا ہے جو فصاحت و بلاغت میں بڑا عجیب ہے۔ یا مواعظ كے اعتبار سے عجیب ہے۔ یا بركت كے لحاظ سے نہایت تعجب انگیز ہے۔ (فتح القدیر) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما كہتے ہیں ایك دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب كے ساتھ عكاظ كے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں كو آسمان كی خبریں ملنا بند ہوگئی تھیں اور ان پر انگارے پھینكے جاتے تھے۔ وہ (زمین كی طرف) لوٹے اور (آپس میں) كہنے لگے یہ كیا ہوگیا؟ ہمیں آسمان كی خبر ملنا بند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینكے جاتے ہیں ضرور كوئی نئی بات واقع ہوئی ہے۔ جس كی وجہ سے ہمیں آسمان كی خبر ملنا بند ہوگئی۔ اب یوں كرو كہ ساری دنیا كے مشرق ومغرب میں پھر كر دیكھو كہ كیا نئی بات واقع ہوئی ہے۔ ان میں سے كچھ شیطان تہامہ (حجاز) كی طرف بھی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تك پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ میں اپنے اصحاب كو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب ان جنوں نے قرآن سنا۔ تو ادھر كان لگا دئیے پھر كہنے لگے یہی وہ چیز ہے جس كی وجہ سے آسمان كی خبر ہم پر بند كر دی گئی۔ پھر اس وقت وہ اپنی قوم كی طرف لوٹے اور انھیں كہنے لگے: یَا قَوْمَنَا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبَا سے اَحَدًا) اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ سورت نازل فرمائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ جنوں كی یہ گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو وحی كے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری: ۷۷۳، مسلم: ۴۴۹)