يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے ایمان والو! نشے کی حالت میں [٧٥] نماز کے قریب تک نہ جاؤ تاآنکہ تمہیں یہ معلوم ہوسکے کہ تم نماز میں کہہ کیا رہے ہو۔ اور نہ ہی جنبی نہائے بغیر نماز کے قریب جائے الا یہ کہ وہ راہ طے کر رہا ہو۔ اور اگر بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئے یا تم نے اپنی بیویوں کو چھوا ہو، پھر تمہیں پانی نہ ملے تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا [٧٦] مسح کرلو (اور نماز ادا کرلو) یقیناً اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشنے والا ہے۔
حرمت شراب کی یہ دوسری کڑی ہے ۔ پہلی آیت سورۃ بقرہ ((219میں فرمایا کہ شراب اور جوئے کے کچھ فائدے ہیں مگر نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت علی ابن ابی طالب سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہمارے لیے کھانا بنایا۔ دعوت دی اور ہمیں شراب پلائی جس نے ہمیں مدہوش کردیا، اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا، انھوں نے مجھے امام بنایا میں نے سورۂ کافرون غلط پڑھ دی۔ (ترمذی: ۳۰۲۶) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یہ شراب کے بارے میں دوسرا حکم ہے جو مشروط ہے۔ پھر اس کے بعد سورۃ مائدہ آیت نمبر 91/92کی روسے شراب کو ہمیشہ کے لیے حرام قراردے دیا گیا۔ تیمم اور غسل جنابت: نماز کے لیے طہارت فرض ہے۔ عام حالت میں تو وضوکرنے سے طہارت حاصل ہوجاتی ہے۔ مگر جنبی آدمی کے لیے نماز سے پہلے غسل ضروری ہے۔ اگر کسی کو وضو کے لیے اور جنبی کو غسل کے لیے پانی میسر نہ ہو یاکوئی ایسا بیمار ہو جسے نہانے سے نقصان ہو تو ان صورتوں میں تیمم کرکے نماز ادا کی جائے۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا، وضو کے لیے پانی منگوایا۔ آپ نے وضو فرمایا اور نماز کے لیے آذان کہی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا تو ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا ’’تجھے کس چیز نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا۔‘‘ اس شخص نے جواب دیا کہ میں جنبی ہوگیا ہوں اور پانی موجود نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تجھے مٹی سے تیمم کرلینا چاہیے تھا وہ تجھے کافی تھا۔‘‘(بخاری: ۳۴۴، مسلم: ۶۸۲) تیمم کا طریقہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ بتایا ’’اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک بار مٹی پر مارا۔ پھر انھیں اپنے منہ کے قریب کیا اور ان پر پھونک ماری، زائد مٹی اڑادی پھر آپ نے بائیں ہتھیلی سے دائیں ہاتھ کی پشت پر اور داہنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت پر مسح کیا۔ پھر دونوں ہتھیلیوں سے اپنے چہرے کا مسح کیا۔ (بخاری۳۴۶) مجبوری کی حالت میں مساجد میں سے گزرا جاسکتا ہے بعض صحابہ کے مکان اس طرح تھے کہ انھیں ہرصورت میں مسجد نبوی کے اندر سے گزرکر جانا پڑتا تھا۔ یہ رخصت ان ہی کے پیش نظر دی گئی۔ تیمم کی چار صورتیں ہیں: (۱) وہ بیمار جسے وضو کرنے سے بیماری میں اضافہ یا نقصان ہوسکتا ہو اسے تیمم کی اجازت ہے۔ (۲) مسافر کو تیمم کی اجازت ہے، لمبا سفر ہو یا مختصرپانی نہ ملنے کی صورت میں مسافر اور مقیم کو تیمم کی رخصت ہے۔ (۳) قضائے حاجت، ہوا، یا مذی خارج ہونے پر وضو کرنا واجب ہے اگر پانی نہ ملے تو تیمم کی رخصت ہے۔ (۴) بیوی سے مباشرت یا احتلام کی وجہ سے بھی اگر پانی نہ ملے تو تیمم کی رخصت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنادی گئی ہے۔ (بخاری: ۳۴۸) دین میں تنگی نہیں ہے: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’ہم ایک سفر پر نکلے اثنائے سفر ہمارے ایک ساتھی کو سر پر پتھر لگا اور وہ زخمی ہوگیا۔ اسی دوران اسے احتلام ہوگیا۔ تو وہ اپنے ساتھیوں سے پوچھنے لگا کیا تمہارے خیال میں میں تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں، انھوں نے کہا کہ تم کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہو جبکہ پانی موجود ہے ۔ چنانچہ اس نے غسل کیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ جب اس واقعہ کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ نے فرمایا:اللہ انھیں غارت کرے، ان لوگوں نے اُسے مار ڈالا جب انھیں یہ مسئلہ معلوم نہ تھا تو انھوں نے کیوں نہ پوچھ لیا؟ اسے اتنا ہی کافی تھا کہ زخم پر پٹی باندھ لیتا اور اس پر مسح کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔ (مستدرك حاکم: ۱ /۱۶۵)