وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
نیز اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی [٢٣] کی مثال پیش کرتا ہے جب اس نے دعا کی کہ : اے میرے پروردگار! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور ان ظالموں سے بھی نجات دے۔
سیدہ مریم اور سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہما زوجہ فرعون كی فضیلت: یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں كی مثال بیان فرما كر ارشاد فرماتا ہے كہ اگر یہ اپنی ضرورت پر كافروں سے خلط ملط ہوں تو انھیں كچھ نقصان نہ ہوگا۔ جیسا كہ سورئہ آل عمران (۲۸) میں فرمایا: ﴿لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ ’’ایمان داروں كو چاہیے كہ مسلمانوں كے سوا اوروں سے دوستیاں نہ كریں جو ایسا كرے گا وہ خدا كی طرف سے كسی بھلائی میں نہیں۔ ہاں اگر بطور بچاؤ اور دفع الوقتی كے طور ہو تو اور بات ہے۔ سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ روئے زمین كے تمام تر لوگوں میں سب سے زیادہ سركش فرعون تھا لیكن اس كے كفر نے بھی اس كی بیوی كو كچھ نقصان نہ پہنچایا۔ اس لیے وہ اپنے زبردست ایمان پر پوری طرح قائم تھیں اور یہیں سے یہ جان لو كہ اللہ تعالیٰ عادل حاكم ہے وہ ایك کے گناہ پر دوسرے کو نہیں پكڑتا۔ (تفسیر طبری: ۲۳/ ۵۰۰) حضرت آسیہ جب ایمان پر قائم رہیں تو فرعون نے اسی میں عافیت سمجھی كہ اسے مروا ڈالے، اس وقت اس نے اپنے پروردگار سے دعا كی كہ مجھے اب ان ظالموں سے نجات عطا فرما۔ اور مجھے اپنے ہاں بلا لے اور جنت میں میرے رہنے كو ایك گھر بنا دے۔ اس كی یہ دعا قبول ہوگئی اور موت آنے سے پہلے ہی سكرات موت میں اللہ نے اسے جنت میں اس كا محل دكھا دیا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا كہ: ’’مردوں میں تو بہت سے كامل لوگ گزرے ہیں، مگر عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ فرعون كی بیوی كے سوا كوئی كامل نہیں ہوئی اور عائشہ رضی اللہ عنہا كی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید كی فضیلت دوسرے كھانوں پر۔ (بخاری: ۳۷۶۹، مسلم: ۲۴۳۱)