سورة النسآء - آیت 34

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار [٥٧] اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ لہٰذا نیک عورتیں وہ ہیں جو (شوہروں کی) فرمانبردار ہوں اور ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق [٥٨] (مال و آبرو) کی حفاظت کرنے والی ہوں۔ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا [٥٩] اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو (پھر بھی نہ سمجھیں تو) انہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات قبول کرلیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ [٦٠] یقیناً اللہ بلند مرتبہ والا اور بڑی شان والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مرد قوام کس لحاظ سے:  قوام اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگرانی کرنے اور اس کی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مردوں کے قوام ہونے کی اللہ تعالیٰ نے دو وجوہات بیان کی ہیں۔ (۱)مرد اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورتوں سے مضبوط ہوتے ہیں اور زیادہ مشقت کا کام کرسکتے ہیں۔ (۲) وہ اپنے اہل خانہ کی تمام معاشی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ان کی نگہبانی کرتے ہیں ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ عورتوں کے سپرد امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش، دیکھ بھال کی ذمہ داری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اُسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہوجائے۔ جب تم اُسے کسی بات کا حکم دو تو تمہاری اطاعت کرے، جب تم گھر میں نہ ہو تو تمہارے پیچھے تمہارے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (نسائی: ۳۲۳۳، مستدرک حاکم: ۲/ ۱۶۱، ح: ۲۶۸۲) مگر جب خاوند کوئی ایسا کام بتائے جو گناہ کا کام ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو تی تو اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ مثلاً مرد اگر نماز سے روکے پردہ سے روکے شرک اور بدعت والے کاموں پر مجبور کرے تو اس سے انکار کردینا ضروری ہے۔ عورت کی سرکشی کی صورت میں: اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے اقدام کرنے کی اجازت دی ہے۔ (۱) اسے نرمی سے سمجھائے۔ (۲) وقتی اور عارضی طور پر بستر سے الگ کردے، سمجھدار عورت کے لیے یہ بہت بڑی تنبیہ ہے۔ (۳) ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ جو ظالمانہ اور وحشیانہ نہ ہو۔ پھر اگر وہ اصلاح کرے تو پھر پچھلی باتیں یاد کرکے اس سے انتقام نہ لو، مارپیٹ نہ کرو یا طلاق نہ دو۔ اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ، اگر ایسا کرو گے تو یاد رکھو اللہ بلند مرتبہ اور پوری قدرت رکھتا ہے وہ تم سے تمہارے اس جرم کا بدلہ ضرور لے گا۔