فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا
چنانچہ انہوں نے اپنے کیے کا وبال چکھ لیا اور ان کے کام کا انجام خسارہ ہی تھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كہ پھر اگر دنیا كے عذابوں سے معاملہ صاف ہو جاتا تو جب بھی ایك بات تھی، نہیں، پھر ان كے لیے آخرت میں بھی سخت عذاب اور بے پناہ مار ہے۔ اب اے سوچ سمجھ والو! تمہیں چاہیے كہ ان جیسے نہ بنو، اور ان كے انجام سے عبرت حاصل كرو۔ اے عقلمند ایمان دارو! اللہ نے تمہاری طرف قرآن نازل كیا ہے ذكر سے مراد قرآن ہے۔ جیسے سورئہ حجر (۹) میں فرمایا: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ ’’ہم نے اس قرآن كو نازل فرمایا اور ہم ہی اس كی حفاظت كرنے والے ہیں۔‘‘ واضح رہے كہ ذكر كا لغوی معنی یاد دہانی اور نصیحت ہے، یعنی قرآن انسان كو عہد الست كی بھی یاد دہانی كراتا ہے۔ اور سابقہ رسولوں كی تعلیمات كی بھی۔ اور ذكر كو اگر اس سے وسیع معنوں میں لیا جائے تو اس سے مراد وہ تمام وحی ہے جو آپ پر نازل ہوئی۔ اور جو قرآن كی ہی تفسیر و تعبیر پیش كرتی ہے۔