فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا
پھر جب وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں یا تو بھلے طریقے سے [٧] (اپنے نکاح میں) روکے رکھو یا پھر بھلے طریقے سے انہیں چھوڑ دو اور اپنے میں سے دو صاحب عدل [٨] گواہ بنا لو۔ اور (اے گواہو!) ! اللہ کے لئے شہادت ٹھیک ٹھیک [٩] ادا کرو۔ یہی بات ہے جس کی اس شخص کو نصیحت [١٠] کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا [١١] کردے گا۔
عائلی قوانین: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كہ عدت والی عورتوں كی عدت جب پوری ہونے كے قریب پہنچ جائے تو ان كے خاوندوں كو چاہیے كہ وہ دو باتوں میں سے ایك كر لیں یا تو انھیں بھلائی كے ساتھ اور سلوك كے ساتھ اپنے ہی نكاح میں روك لیں۔ یعنی طلاق جو دی تھی اس سے رجوع كر كے باقاعدہ اس كے ساتھ بود وباش ركھیں یا انہیں طلاق دے دیں، لیكن برا بھلا كہے بغیر، گالی گلوچ دئیے بغیر، اچھائی اور خوبصورتی كے ساتھ (یہ یاد رہے كہ رجعت كا اختیار اس وقت ہے جب ایك یا دو طلاق ہوئی ہوں) پھر فرمایا: اگر رجعت كا ارادہ كرو تو اس پر دو عادل مسلمان گواہ ركھ لو۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے دریافت كیا گیا كہ ایك شخص اپنی بیوی كو طلاق دیتا ہے پھر اس سے رجوع كرتا ہے، نہ طلاق پر گواہ ركھتا ہے اور نہ رجعت پر، تو آپ نے فرمایا كہ اس نے خلاف سنت طلاق دی۔ اور خلاف سنت رجوع كیا، طلاق پر بھی گواہ ركھنا چاہیے اور رجعت پر بھی، اب دوبارہ ایسا نہ كرنا۔ (ابوداود: ۲۱۸۶) جو اللہ سے ڈرتا ہے: یعنی جو شخص احكام خدا بجا لائے، اس كی حرام كردہ چیزوں سے پرہیز كرے اللہ تعالیٰ اس كے لیے مخلصی پیدا كر دیتا ہے یعنی شدائد اور آزمائشوں سے نكلنے كی سبیل پیدا كر دے گا۔