سورة النسآء - آیت 32

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اگر اللہ نے تم میں سے کسی ایک کو دوسرے پر کچھ فضیلت [٥٤] دے رکھی ہے تو اسکی ہوس نہ کرو۔ جو کچھ مردوں [٥٥] نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ (ثواب) ہے اور جو عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا بھی حصہ ہے۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہا کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شان نزول: حضرت ام سلمیٰ نے عرض کیا کہ مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں، ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت، طاقت اپنی حکمت و ارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دوسرے بیرونی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کے لیے اللہ کا خاص عطیہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں یہ جو کچھ کمائیں گی مردوں کی طرح ان کا پور ا پورا صلہ انھیں ملے گا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد کار اور قوت و صلاحیت کا ر کا جو فرق ہے وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے۔ جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اللہ بڑا صاحب فضل ہے وہ تمہاری سب کمزوریاں اور کوتاہیاں دور کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔