يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل [٤٨] طریقوں سے نہ کھاؤ۔ درست صورت یہ ہے کہ باہمی [٤٩] رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ [٥٠] بلاشبہ اللہ تم پر نہایت مہربان ہے
باطل طریقے کون کون سے ہیں: باطل طریقوں سے مراد وہ ذریعہ آمدنی ہے جسے شریعت نے حرام قراردیا ہو، جیسے: ۱) ہر وہ کام جس میں دوسرے کا مالی نقصان ہو جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، غبن، دھوکہ جعل سازی اور ملاوٹ وغیرہ ۔ ۲) سود اور اس کی تمام شکلیں جیسے سود مفرد یا سود مرکب ڈسکاؤنٹ ہو مارک اپ یا مارک ڈاؤن وغیرہ ۔ ۳) ہر ایسا کام جس میں تھوڑی محنت اور کثیر مال ہاتھ آتا ہو مثلاً جوا، لاٹری، سٹہ بازی اور بیمہ پالیسی بھی۔ ۴) ممنوع اور حرام چیزوں کا کاروبار کرنا بھی باطل میں شامل ہے۔ مثلاً بلا ضرورت فوٹوگرافی، ریڈیو، ٹی وی۔ وی سی آر ویڈیو فلمیں اور فحش کیٹس وغیرہ کہ ان کا بنانا، بیچنا اور مرمت کرنا سب ناجائز ہے۔ ۵) حکومت کے ذریعے دوسروں کے مال بٹورنا، مثلاً لین دین کے جھوٹے مقدمات اور رشوت وغیرہ۔ لوگوں کی زمینیں ان کی رضا مندی کے بغیر حاصل کرنا وغیرہ۔ ۶) کتاب اللہ میں تحریف و تبدیل اور غلط فتووں سے مال بٹورنا، جیسا کہ علماء سو کا چلن ہے۔ احادیث کی روشنی میں: ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مارلیتا ہے۔ اللہ اس کے لیے دوزخ واجب کردیتا ہے۔ اور جنت اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے ۔‘‘ کسی نے آپ سے پوچھا اگرچہ یہ حق تلفی بالکل معمولی قسم کی ہو؟ فرمایا: ’’اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسلم: ۳۳۵۱) اپنے آپ کو قتل نہ کرو سے مراد: یہ خودکشی بھی ہوسکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی مراد ہو سکتا ہے، کیونکہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ اس لیے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔ (۲) باطل طریقوں سے لوگوں کا مال ہضم کرکے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔