يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الٰہی کی طرف [١٤] دوڑ کر آؤ اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ اگر تم جانو تو یہی بات تمہارے لیے بہتر ہے۔
جمعہ كا دن كیا ہے اور اس كی اہمیت كیا ہے: اس دن مسلمان خدا كی عبادت كے لیے بڑی بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں۔ نیز جمعہ كو جمعہ اس لیے كہتے ہیں كہ اس دن اللہ تعالیٰ ہر چیز كی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات كا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز كے لیے لوگوں كا اجتماع ہوتا ہے اس لیے اسے جمعہ كہتے ہیں۔ (فتح القدیر) اذان كس طرح دی جائے اس كے الفاظ كیا ہوں؟ اذان کے الفاظ اور اس کے دینے کا طریقہ قرآن میں كہیں مذکور نہیں البتہ حدیث میں اس کا تفصیلی ذکر آتا ہے جس سے معلوم ہوا كہ حدیث كے بغیر قرآن كو سمجھنا ممكن ہے نہ اس پر عمل كرنا۔ اذان كے متعلق چند احادیث: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ مسلمان جب مدینہ آئے تو نماز كے لیے یوں ہی جمع ہو جایا كرتے۔ ایك وقت ٹھہرا لیتے اذان نہیں ہوتی تھی، ایك دن انھوں نے اس بارے میں گفتگو كی تو بعض كہنے لگے كہ نصاریٰ كی طرح ایك گھڑیال بنا لو، اور بعض كہنے لگے یہود كی طرح ایك بگل بنا لو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے كہا، ایك آدمی كیوں نہیں مقرر كر لیتے جو نماز كے لیے ندا كر دیا كرے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی رائے كو پسند كرتے ہوئے) بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا، بلال! اٹھو اور نماز كے لیے اذان كہو۔ (بخاری: ۶۰۲) فاسعوا: كا مطلب یہ نہیں كہ دوڑ كر آؤ بلكہ یہ ہے كہ اذان كے فوراً بعد آجاؤ، اور كاروبار بند كر دو، كیونكہ نماز كے لیے دوڑ كر آنا ممنوع ہے احادیث میں نماز کے لیے وقار اور سكینت كے ساتھ آنے كی تاكید كی گئی ہے۔ (بخاری: ۶۰۲) یہاں اللہ تعالیٰ جمعہ كے دن مومنوں كو اپنی عبادت كے لیے جمع ہونے كا حكم دے رہا ہے۔ یعنی نماز كے لیے سعی، كوشش كرو، كام كاج چھوڑ دو، دنیا كے مشاغل جیسے بھی ہوں جس قسم كے بھی ہوں اذان جمعہ كے بعد انھیں ترك كر دیا جائے۔