مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا پھر انہوں نے یہ بار نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں اٹھائے [٩] ہوئے ہو۔ (اس سے بھی) بری مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا [١٠] اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
اَسْفَارً: سفر كی جمع ہے مراد بڑی كتاب ہے۔ كتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس كے معنوں میں سفر كرتا ہے اس لیے كتاب كو بھی سفر كہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر) یہ بے عمل یہودیوں كی مثال بیان كی گئی ہے كہ جس طرح گدھے كو معلوم نہیں ہوتا كہ اس كی كمر پر كتابیں لدی ہوئی ہیں۔ ان میں كیا لكھا ہوا ہے؟ یا اس كی كمر پر كوئی كوڑا كركٹ لدا ہے، اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات كو تو اٹھائے پھرتے ہیں ان كو پڑھنے اور یاد كرنے كے وعدے بھی كرتے ہیں۔ لیكن نہ تو یہ معلوم ہے كہ مطلب كیا ہے نہ اس پر ان كا عمل ہے بلكہ تبدیل و تحریف كرتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں كیونكہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے۔ جب كہ ان كے اندر فہم وشعور ہے۔ لیكن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں كرتے اسی لیے آگے فرمایا كہ ان كی بڑی بری مثال ہے۔ سورئہ الاعراف: (۱۷۹) میں فرمایا: ﴿اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ﴾ ’’یہ چوپائے كی طرح ہیں بلكہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔‘‘ عالم بے عمل كی گدھے سے تشبیہ: اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں كو گدھا قرار دیا ہے، جو علم وفضل كے دعویدار تھے۔ اس سے خود بخود یہ اصول ثابت ہوتا ہے كہ جو عالم بے عمل یا بد عمل ہو وہ عالم نہیں بلكہ گدھا ہوتا ہے۔ جو مفت میں اپنی پیٹھ پر كتابوں كا اور علم كا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ اللہ كی آیات: سے مراد وہ بشارتیں اور نبی آخر الزماں كی صفات ہیں جو تورات میں موجود تھیں اور اس نبی آخر الزمان كو جھٹلا دینا گویا اللہ كی آیات كو جھٹلا دینے كے مترادف تھا۔