وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور ان (یہودیوں کے اموال) سے جو کچھ اللہ نے ان سے اپنے رسول کو مفت میں دلا دیا جس کے لیے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے [٦] تھے اور نہ اونٹ (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں) بلکہ اللہ ہی اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
مال فئ كی تعریف ووضاحت: فئے كس مال كو كہتے ہیں، اس كی صفت كیا ہے؟ اس كا حكم كیا ہے: فئے اس مال كو كہتے ہیں جو کفار سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں كے قبضے میں آجائے، جیسے بنونضیركا یہ مال تھا جس كا ذكر اوپر ہو چكا ہے كہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے۔ یعنی ان كفار سے آمنے سامنے كوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی تھی بلكہ ان كے دل اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كی ہیبت سے بھر دئیے اور وہ اپنے قلعے خالی كر كے چلے گئے ان سے جو مال حاصل ہوا اسے مال فئے كہتے ہیں اور یہ مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح چاہیں اس میں تصرف كریں۔ حدیث میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ بنونضیر كے مال ان اموال میں سے تھے جو اللہ نے لڑائی كے بغیر اپنے پیغمبر كو دلا دئیے، مسلمانوں نے ان پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے اس قسم كے مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے گنے جاتے تھے، ایسے اموال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں كا سامان كا خرچ نكال لیتے تھے اور باقی مال جہاد كے سامان كی تیاری اور گھوڑوں (وغیرہ) میں خرچ كرتے۔ (بخاری: ۲۹۰۴)