ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۖ وَمَن يُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ کی مخالفت کرے تو اللہ (انہیں) سزا دینے میں بہت سخت ہے
محاصرہ كے وقت مسلمانوں كا درخت كاٹنا: مدینہ كے قریب بنو نضیر كا ایك نہایت خوبصورت باغ تھا جسے بویرہ كہتے تھے اس میں بہت سے كھجوروں كے درخت تھے جب مسلمانوں نے بنو نضیر كا محاصرہ كرنا چاہا تو یہ درخت كام میں آڑے آرہے تھے چنانچہ جو درخت ركاوٹ بن سكتے تھے۔ مسلمانوں نے ان كو كاٹ كر اور جہاں گنجان تھے وہاں انہیں آگ لگا كر محاصرہ كے لیے اپنی راہ صاف كر لی۔ اللہ كا حكم: یہودیوں نے بطور طعنہ كے كہا تھا كہ كھجوروں كے درخت كٹوا كر اپنے قول كے خلاف فعل كر كے زمین میں فساد كیوں پھیلاتے ہیں؟ یہ اس كا جواب ہے كہ جو كچھ ہو رہا ہے وہ حكم رب سے اور اجازت خدا سے دشمنان خدا كو ذلیل وناكام كرنے اور انھیں پست و بے نصیب كرنے كے لیے ہو رہا ہے۔ جو درخت كاٹے جاتے ہیں اور جو درخت باقی ركھے جاتے ہیں وہ بھی مصلحت كے ساتھ۔ حدیث میں ہے كہ بعض مہاجرین نے بعض كو ان درختوں كے كاٹنے سے منع كیا تھا كہ آخر كو تو یہ مسلمانوں كو بطور مال غنیمت ملنے والے ہیں پھر انھیں كیوں كاٹا جائے؟ جس پر یہ آیت اتری كہ روكنے والے بھی حق بجانب ہیں اور كاٹنے والے بھی برحق ہیں۔ (تفسیر طبری: ۲۳/ ۱۷۲) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں كہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے جنگ كی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر كو تو جلا وطن كیا اور بنو قریظہ كو وہیں رہنے دیا اور ان پر احسان كیا تاآنكہ بنو قریظہ نے جنگ كی (جنگ احزاب كے بعد) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كے مردوں كو قتل كر دیا اور ان كی عورتوں، بچوں اور اموال كو مسلمانوں میں تقسیم كر دیا ماسوائے ان لوگوں كے جو پہلے ہی آكر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سے مل گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں امن دیا اور وہ مسلمان ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام یہود كو جلا وطن كیا ان میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ كے قبیلہ بنو قینقاع كے یہود بھی شامل تھے اور بنو حارثہ بھی۔ غرض مدینہ كے تمام یہودیوں كو جلا وطن كر دیا۔ (بخاری: ۴۰۲۸)