يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے (مساکین کو) صدقہ کیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ [١٦] تر بات ہے۔ ہاں اگر تم صدقہ دینے کے لئے کچھ نہ پاؤ تو بلاشبہ اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
سرگوشی پر عارضی پابندی: ہر مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مناجات اور خلوت میں گفتگو كرنے كی خواہش ركھتا تھا، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو خاصی تكلیف ہوتی۔ اور وہ آپ كا اتنا وقت ضائع كر دیتے جس سے دوسروں كو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ كا وقت نہ ملتا تھا۔ بعض كہتے ہیں كہ منافقین یوں ہی بلا وجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مناجات میں مصروف رہتے تھے۔ پھر منافقوں كی دیكھا دیكھی كچھ مسلمان بھی ایسا كرنے لگے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروت واخلاق كی وجہ سے كسی كو منع نہ فرماتے۔ اس لیے اللہ نے یہ حكم نازل فرما دیا۔ تاكہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو كرنے كے رجحان عام كی حوصلہ شكنی ہو۔ صدقہ دے دیا كرو: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو سے پہلے كچھ صدقہ دینے سے تمہارے ہی دوسرے مسلمان بھائیوں كو فائدہ ہوگا اور پاكیزہ تر اس لیے كہ یہ ایك عمل صالح اور اطاعت الٰہی ہے۔ جس سے نفوس انسانی كی تطہیر ہوتی ہے اس حكم سے منافقوں نے اپنے بخل كی وجہ سے یہ عادت چھوڑ دی۔