لِّئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
تاکہ اہل کتاب یہ نہ سمجھ [٥٣] بیٹھیں کہ مسلمان اللہ کے فضل کا کچھ بھی حصہ حاصل نہیں کرسکتے۔ حالانکہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اہل کتاب یقین کر لیں کہ خدا جسے دے یہ اس کے لوٹانے کی اور جسے نہ دے اسے دینے کی کچھ قدرت نہیں رکھتے۔ اور اس بات کو بھی وہ جان لیں کہ فضل وکرم کا مالک صرف وہی پروردگار ہے۔ اس کے فضل کا کوئی اندازہ اور حساب نہیں لگ سکتا۔ صحیح بخاری میں ہے: مسلمان اور یہود ونصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے چند لوگوں کو کام پر لگایا، اجرت ٹھہرا لی اور انھوں نے ظہر تک کام کر کے کہہ دیا کہ اب ہمیں ضرورت نہیں جو ہم نے کیا ہم اس کی اجرت بھی نہیں چاہتے اور اب ہم کام بھی نہیں کریں گے اس نے انھیں سمجھایا بھی کہ ایسا نہ کرو کام پورا کرو اور مزدوری لے جاؤ لیکن انھوں نے صاف انکار کر دیا اور کام ادھورا چھوڑ کر اجرت لیے بغیر چلے گئے۔ اس نے اور مزدور لگائے کہ باقی کام شام تک تم پورا کرو اور پورے دن کی مزدوری میں تمہیں دوں گا۔ یہ کام پر لگے لیکن عصر کے وقت یہ بھی کام سے ہٹ گئے اور کہہ دیا کہ اب ہم سے نہیں ہو سکتا، ہمیں آپ کی اجرت نہیں چاہیے اس نے انھیں بھی سمجھایا کہ دیکھو اب باقی دن ہی کیا رہ گیا ہے۔ تم کام پورا کرو اور اجرت لے جاؤ، لیکن یہ نہ مانے اور چلے گئے۔ اس نے پھر اوروں کو بلایا اور کہا کہ تم مغرب تک کام پورا کرو اور دن بھر کی مزدوری لے جاؤ۔ چنانچہ انھوں نے مغرب تک کام کیا اور ان دونوں جماعتوں کی اجرت بھی یہی لے گئے پس یہ ہے ان کی مثال اور یہ ہے اس نور کی مثال جسے انھوں نے قبول کیا۔ (بخاری: ۲۲۷۱) الحمد للہ سورئہ الحدید کی تفسیر مکمل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔