يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث [٣٢] بن بیٹھو۔ اور نہ ہی انہیں اس لیے روکے رکھو کہ جو مال (حق مہر وغیرہ) تم انہیں دے چکے ہو اس کا کچھ حصہ اڑا لو۔ اِلا ّ یہ کہ وہ صریح بدچلنی [٣٣] کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے [٣٤] زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو مگر اللہ نے اس میں بہت [٣٤۔ ١] بھلائی رکھ دی ہو
اسلام سے قبل عورت پر ایک یہ ظلم بھی ہوتا تھا کہ شوہر کے مرجانے کے بعد اسکے گھر کے لوگ اس کے مال کی طرح اس عورت کے بھی زبردستی وارث بن جاتے تھے۔ اور خود اپنی مرضی سے اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے نکاح کرلیتے یا اپنے بھائی بھتیجے سے اس کا نکاح کردیتے ۔ حتیٰ کہ سوتیلا بیٹا بھی باپ کے مرنے کے بعد اس کی عورت سے نکاح کرلیتایا اگر چاہے تو اسے کسی بھی جگہ نکاح کرنے کی اجازت نہ دیتے اور وہ ساری عمر یونہی گزارنے پر مجبور ہوتی۔ اسلام نے ظلم کے ان تمام طریقوں سے منع فرمادیا۔ ایک ظلم یہ بھی عورت پر کیا جاتا تھا کہ اگر وہ خاوند کو پسند نہ ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تو وہ ازخود اسے طلاق نہ دیتا۔ بلکہ اسے خوب تنگ کرتا تاکہ وہ مجبور ہوکر حق مہر یا جو کچھ خاوند نے اُسے دیا ہوتا ازخود واپس کرکے اس سے خلاصی کو ترجیح دے۔ اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قراردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع کے دوران فرمایا : ’’عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی ذمہ داریوں پر حاصل کیا ہے۔ اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں۔ جسے تم ناپسند کرتے ہو، پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انھیں مارسکتے ہو لیکن اس طرح کہ انھیں چوٹ نہ آئے۔ اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انھیں دستور کے مطابق خوراک اور پوشاک مہیا کرو۔ (مسلم: ۱۲۱۸) کھلی برائی کا ارتکاب کریں سے مراد بدکاری ہے: بدبانی یا نافرمانی نہیں ہے ان دونوں صورتوں میں البتہ یہ اجازت دی گئی ہے کہ خاوند اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے کہ وہ اس کا حق مہر اور دیا ہوا مال واپس کرکے خلع کرانے پر مجبور ہوجائے۔ اگر تمہیں کوئی چیز اس میں ناگوار ہو: اس کی قرآن میں بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور یہ حسن معاشرت کا وہ حکم ہے جس کی احادیث میں بھی بڑی وضاحت اور تاکید کی گئی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’مومن مرد (شوہر) مومنہ بیوی (عورت) سے بغض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو اسکی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہوگی۔‘‘ (مسلم: ۱۴۶۷) مطلب یہ ہے کہ بے حیائی اور زبان درازی، نافرمانی کے علاوہ بیوی میں کچھ اور کوتاہیاں ہوں جن کی وجہ سے خاوند اسے ناپسند کرتا ہو تو اسے جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ بلکہ صبر و برداشت کا مظاہرہ کرے ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں سے اس کے لیے خیر کثیر پیدا فرمادے۔ یعنی نیک اولاد دے دے یا اس کی وجہ سے کاروبار میں برکت ڈال دے وغیرہ وغیرہ۔ عورت بھی مرد کی طرح آزاد پیدا ہوئی ہے غلام نہیں کہ گھر میں اسے آزادی سے فیصلے کا اختیار نہ ہو، مرد کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ آپ بااختیار ہو اس لیے عورت کی کمزوریوں کو آپ بھی برداشت کرو اگر کسی وجہ سے عورت تمہیں پسند نہیں آرہی تو اس کی اچھائیوں کو اہمیت دو۔ جس سے تمہارا زیادہ فائدہ ہوگا۔ اچھے اخلاق۔ اچھی سوچ سوجھ بوجھ رکھنے والی اگر خوبصورت نہیں کوئی بات نہیں۔