وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے پروردگار کے ہاں صدیق [٣٢] اور شہید [٣٣] ہیں انہیں (اپنے اپنے اعمال کے مطابق) اجر بھی ملے گا اور روشنی [٣٤] بھی۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلا دیا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے ہی صدیق وشہید ہیں ان دونوں اوصاف کے مستحق لوگ صرف ایمان والے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ: ’’آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے، اور سچ ہی کی تلاش اور کوشش میں رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم: ۲۶۰۶) ایک اور حدیث میں صدیقین کا وہ مقام بیان کیا گیا ہے، جو جنت میں انھیں حاصل ہوگا۔ چنانچہ فرمایا: ’’جنتی اپنے سے اوپر کے بالا خانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یا مغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو۔ یعنی ان کے درمیان درجات کا اتنا فرق ہوگا، صحابہ نے پوچھا یہ تو انبیاء کے درجات ہوں گے جن کو دوسرے حاصل نہیں کر سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی تصدیق کی۔‘‘ (بخاری: ۳۲۵۶، مسلم: ۲۸۳۱) یعنی ایمان وتصدیق کا حق ادا کیا۔ (فتح القدیر) نور سے مراد اعمال صالحہ کی روشنی ہے جس کی تشریح اسی سورہ کی آیت نمبر ۱۲ کے تحت کر دی گئی ہے۔