سورة الحديد - آیت 13

يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمانداروں سے کہیں گے :’’ہماری طرف دیکھو [٢٠] تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرسکیں‘‘ انہیں کہا جائے گا : پیچھے چلے [٢١] جاؤ اور نور تلاش کرو۔ پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ [٢٢] ہوگا اس دروازے کے اندر تو رحمت ہوگی اور باہر عذاب ہوگا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

میدان محشر میں منافقوں اور مومنوں میں سوال وجواب: منافق بھی چونکہ دنیا میں ایمان دار لوگوں کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے، وہاں بھی یہ کوشش کریں گے کہ وہ بھی ایمان داروں کے ساتھ رہیں، اس دن انھیں ایمان اور اعمال صالحہ کا فائدہ خوب معلوم ہو چکا ہوگا۔ لیکن ان کا اپنا نور تو کچھ ہوگا نہیں اس لیے وہ مومنوں سے درخواست کریں گے کہ ذرا ہمارا بھی انتظار کر لو۔ تاکہ تمہاری روشنی سے فائدہ اٹھا کر ہم بھی کچھ آگے بڑھ سکیں اور تمہارے ساتھ چل سکیں۔ کہا جائے گا، پیچھے چلے جاؤ اور نور تلاش کرو: یعنی انھیں کہا جائے گا کہ یہ روشنی تو تمھیں دنیا سے ہی مل سکتی ہے۔ اگر تم واپس جا سکتے ہو تو واپس لوٹ جاؤ اور نور تلاش کرو یہ واپس نور کی تقسیم کی جگہ جائیں گے۔ لیکن وہاں کچھ نہ پائیں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جا کر اسی طرح ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر آؤ جس طرح ہم لائیں ہیں۔ مومنوں اور منافقوں کے درمیان گفتگو کا یہ سلسلہ جاری ہو گا کہ ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جو جنت اور جہنم کے درمیان حد فاصل کا کام دے گی جس سے اس طرف رحمت ہی رحمت ہے اور اس طرف عذاب وسزا ہی ہے۔