أَفَبِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ
پھر کیا اس کلام سے [٣٨] تم مداہنت کر رہے ہو
مداہنت کے کئی معنی ہیں مثلاً کسی بات میں لچک پیدا کر لینا۔ ڈھیلا پڑنا منافقت کا رویہ اختیار کرنا، کسی چیز کو اپنی سنجیدہ توجہ کے قابل ہی نہ سمجھنا۔ یعنی اے کفار مکہ! قرآن جیسی بلند پایہ کتاب کے بارے میں تمہارا رویہ یہ ہے کہ تم اسے کچھ اہمیت ہی نہیں دیتے۔ قرآن کو جھٹلاتے ہو: اس آیت کے بھی کئی مطالب ہیں ایک یہ کہ جس طرح روزانہ کھانا کھانا تمہارا معمول ہے اسی طرح قرآن کو جھٹلانا بھی تم نے روز مرہ کا معمول بنا رکھا ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی کوئی اور توجیہ تلاش کر کے اللہ کی اس نعمت کو جھٹلانا بھی تمہارا معمول بن گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر ایک مرفوع روایت سے کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم اپنے رزق کا شکر یوں ادا کرتے ہو کہ اللہ کو جھٹلاتے ہو اور کہتے ہو کہ مینہ ہم پر فلاں ستارے کے سبب سے برسا ہے۔ (ترمذی: ۳۲۹۵) مؤطا میں مروی ہے کہ ’’ہم حدیبیہ کے میدان میں تھے رات کو بارش ہوئی تھی صبح کی نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا، جانتے بھی ہو آج رات تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ لوگوں نے کہا خدا کو معلوم اور اس کے رسول کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سنو! یہ فرمایا کہ آج میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ کافر ہوگئے اور بہت سے ایماندار بن گئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل وکرم سے ہم پر پانی برسا تو وہ میری ذات پر ایمان رکھنے والا ہوا اور جس نے کہا کہ فلاں فلاں ستارے سے بارش برسی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور اس ستارے پر ایمان لایا۔ (موطا امام مالک: ۱/ ۱۹۲۔ بخاری: ۸۴۶۔ مسلم: ۷۱) یہ قرآن بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی بارش اور بہت بڑی نعمت ہے اور تم اس نعمت کی شکر گزاری یوں کرتے ہو کہ اسے جھٹلاتے ہو۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ قرآن کو مان لینے سے تمہارا رزق بند ہو جائے گا۔ کعبہ کی سرپرستی اور تولیت چھن جائے گی، نذریں نیازیں بند ہو جائیں گی اور کعبہ کی وجہ سے عرب بھر میں جو تمہارا عزت ووقار بنا ہوا ہے، سب ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا تم اپنے رزق اور عزوجاہ کو دیکھتے رہو اور قرآن کو جھٹلاتے رہو۔