أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ
بھلا دیکھو! جو آگ تم جلاتے [٣٣] ہو
آگ کا خالق کون؟ عرب میں دو درخت ہوتے ہیں مرخ اور عفار۔ ان دونوں کی ٹہنیاں لے کر، ان کو آپس میں رگڑا جائے تو اس سے آگ کے شرارے نکلتے ہیں۔ اس نعمت کو یاد دلایا گیا ہے کہ یہ آگ جس سے سینکڑوں فائدے حاصل کر رہے ہو بتلاؤ کہ اس کی اصل یعنی درخت کو پیدا کرنے والے تم ہو یا میں؟ آگ یاد دہانی ہے: اس آگ کو ہم نے یاددہانی کا ذریعہ بنایا ہے یعنی اسے دیکھ کر تم جہنم کی آگ کو یاد کرو، اور اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرسل میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ لوگوں نے کہا، حضور یہی بہت کچھ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر یہ سترواں حصہ بھی دو مرتبہ پانی سے بجھایا گیا ہے۔ اب یہ اس قابل ہوا ہے کہ تم اس سے نفع اٹھا سکو اور اس کے قریب جا سکو۔ (تفسیر طبری: ۲۳/ ۱۴۴) پھر فرمایا: اس کے فوائد اور اثرات حیرت انگیز ہیں اور دنیا میں بے شمار چیزوں کی تیاری کے لیے اس کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو ہماری قدرت عظیمہ کی نشانی ہے۔ پھر جس طرح ہم نے دنیا میں یہ آگ پیدا کی ہے، ہم آخرت میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں۔