لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
مردوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں (اسی طرح) عورتوں کے لیے بھی اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ [١٣] ہو۔ ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے
اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’مردوں کی طرح عورتیں اور بچے بھی اور بچیاں بھی اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہونگی۔ انھیں محروم نہیں کیا جائے گا، تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے سے نصف ہوگا۔ قانون میراث عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ اسلام نے عورت کو معاش کی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ہے۔ اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اِسے ادا کرتا ہے۔ مرد کو اپنے خاندان کی بھی کفالت کرنی ہے، اپنے والدین کو بھی سنبھالنا ہے۔ بہن کی شادی کرنی ہے۔ یعنی مرد نے ہر صورت دینا ہی دینا ہے۔ اس لیے عدل کا تقاضا یہی تھا کہ مرد کا حصہ ترکہ میں زیادہ ہو۔ میراث جانے والے کا چھوڑا ہوا ترکہ ہے جو اس کے مرنے کے بعد تقسیم ہوگا ۔ قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار حصہ نہیں پائیں گے۔