وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اور نادانوں کو ان کے مال واپس نہ کرو۔ [٨] جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سامان زیست کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان کے مال سے انہیں کھلاؤ بھی اور پہناؤ بھی اور جب ان سے بات کرو تو اچھی (اور ان کے فائدے کی) بات کرو
مال کے بارے میں بتایا گیا ہے اسے ضروریات میں استعمال کرو، اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرو۔ مال خواہ یتیم کا ہو یا اپنا، اگر نادان کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ اسے ناجائز کاموں میں یا عیش و عشرت میں ضائع کردے گا۔ مال ضائع کرنے کے لیے نہیں بلکہ ضروریات زندگی کے لیے دیا گیا ہے۔ اگر مال کا انتظام احسن طریقے سے کیا جائے۔ یعنی تجارت وغیرہ میں اسے خرچ کیا جائے تو اس سے پورا معاشرہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نادان بچوں کو مال دینے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ بگڑ نہ جائیں۔ صحیح تربیت اور شعور آنے تک اپنی زندگی کا سرمایہ اُسے نہیں دیا جا سکتا۔