وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
اور اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں ان سے انصاف [٥] نہ کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں، دو، دو، تین، تین، چار، چار تک نکاح کرلو۔ [٦] لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ یا پھر وہ کنیزیں ہیں جو تمہارے قبضے میں ہوں۔[٦۔ ١] بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ بات قرین صواب ہے
یتیم لڑکیوں سے نا انصافی: اس کی تفسیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو وہ اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کرلیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پور احق مہر نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کو روکا کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تو ان سے نکاح مت کرو۔ تمہارے لیے دوسری عورتوں سے نکاح کا راستہ کھلا ہے۔ (صحیح بخاری: ۴۵۷۳) بلکہ ایک کی بجائے دو سے تین سے حتیٰ کہ چار عورتوں تک سے تم نکاح کرسکتے ہو۔ بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کرسکو ورنہ ایک ہی سے نکاح کرو ورنہ لونڈی سے گزارا کرو۔ اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی، اس کے کچھ اسباب ہیں۔ (۱)شادی کے قابل مرد کم اور عورتیں زیادہ ہوں۔ (۲) جنگوں میں کثرت سے مرد ختم ہوجاتے ہیں۔ (۳)تنہا عورتوں اور غیر فطری زندگی گزارنے والوں کو ایک پلان دیا ہے کہ ایک سے زائد شادیاں ان کی زندگیوں کے سنورنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ (۴)اگر مرد نے کسی عورت سے غیر فطری تعلق قائم کرلیا، نقصان پھر عورت کا، نہ نکاح نہ حق مہر، نہ اس کے بچے کی ذمہ داری مرد قبول کرتا ہے۔ اس حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمیٰ ثقفی رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا: ’’ان میں سے کوئی سی چار پسند کرلو۔‘‘ باقی چھوڑدو۔ (ابن ماجہ: ۱۹۵۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے، جس کے نام قرعہ نکلتا اُسے اپنے ہمراہ لے جاتے اور آپ ہر بیوی کی باری ایک دن ایک رات مقرر کرتے تھے۔‘‘ (بخاری: ۲۵۹۳) رسول اللہ کی ازواج مطہرات اُمت کی مائیں ہیں جو کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی تھیں، لہٰذا جتنے نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرچکے، وہ سب آپ کے لیے جائز اور حلال قرار دیے گئے۔ ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ: زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس طرف قلبی میلان ہوگاضروریات زندگی کی فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی طرف ہوگی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ لَنْ تَسْتَطِيْعُوْا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَآءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ﴾ (النساء: ۱۲۹) ’’تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے کہ تم بیویوں کے درمیان انصاف کرسکو، اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس صورت ایک سے زیادہ شادی کرنا کہ اس میں بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے۔ نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔ ایسا شخص اللہ کے ہاں مجرم قرارپائے گا۔