رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ
وہ دونوں مشرقوں کا بھی مالک ہے اور دونوں مغربوں [١٤] کا بھی۔
یہاں دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر فرمایا۔ اس لیے کہ اس سورہ میں مسلسل دو چیزوں کا ذکر چل رہا ہے۔ سورۂ معارج (۴۰) میں فرمایا کہ: ﴿فَلَا اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَ الْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ﴾ ’’وہ بہت سے مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے‘‘ دو مشرقوں سے مراد ایک تو وہ مقام ہے جب موسم گرما کا سب سے بڑا دن طلوع ہوتا ہے اور دوسرا وہ مقام ہے جہاں سے سورج موسم کے سب سے چھوٹے دن میں طلوع ہوتا ہے۔ اور ان دونوں مقاموں کے درمیان سب مشرق ہی مشرق ہیں ہر روز طلوع آفتاب کا ایک نیا زاویہ ہوتا ہے۔ اور یہی حال مغربوں کا ہے۔ اسی تبدیلی سے موسم پیدا ہوتے ہیں۔ اور مختلف موسموں میں مختلف فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان مشرقوں اور مغربوں کے پیچھے ایک بڑا حیرت انگیز اور پیچیدہ نظام قائم ہے جس کی بنا پر یہ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ پھر فرمایا سورج کے طلوع و غروب ہونے اور جگہ کے جدا جدا ہونے میں انسانی منفعت اور اس کی مصلحت بینی تھی۔ کیا اب تم اپنے رب کی نعمتوں کے منکر رہو گے۔