تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِّمَن كَانَ كُفِرَ
جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی [١٤]۔ یہ بدلہ اس شخص کی خاطر دیا گیا جس کا انکار [١٥] کیا گیا تھا۔
طوفان میں کشتی کا منظر: جوں جوں پانی کی سطح بلند ہوتی جاتی یہ کشی خود بخود اوپر اُٹھتی جاتی تھی۔ حتی کہ پہاڑ تک پانی میں غرق ہو گئے۔ اس وقت سیدنا نوح علیہ السلام اور آپ کےساتھیوں میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ ہم نے کس طرف کشتی کا رخ موڑنا ہے۔ اور ہماری منزل کون سی ہے۔ وہ بھی اللہ کے سہارے اس کشتی میں جانیں محفوظ کیے بیٹھے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں کچھ علم نہ تھا اور نیچے پانی کا سمندر بن گیا تھا۔ اللہ ہی اس کشتی کی نگرانی اور حفاظت فرما رہا تھا۔ اور اس کے حکم سے یہ اپنا رخ بدلتی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی مدد میں کفار سے یہ انتقام لیا گیا تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی ذات ان کے درمیان ایک نعمت تھی۔ جن کی وجہ سے عذاب رکا ہوا تھا۔ اور نبی کی ناقدر شناسی کی وجہ سے ان پر یہ عذاب آیا تھا۔