سورة آل عمران - آیت 196

لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے نبی)! ملک میں کافروں کے ادھر ادھر چلنے [١٩٧] پھرنے سے آپ کو کسی قسم کا دھوکا نہ ہونا چاہیے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے۔ یعنی مخالفت دین کے باوجود تجارتی قافلے یمن، شام وغیرہ تک جاتے اور معقول منافع کماتے۔ یہ تجارتی سفر وسائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت و فروغ کی دلیل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے۔ اس سے اہل ایمان کو دھوکہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، اصل انجام پر نظر رکھنی چاہیے۔ جو ایمان سے محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ جس میں دولت دنیا سے مالا مال یہ کافر مبتلا ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَا يُجَادِلُ فِيْ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ﴾ (المومن: ۴) اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کاشہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکہ میں نہ ڈالے۔