وَأَعْطَىٰ قَلِيلًا وَأَكْدَىٰ
اور تھوڑا سا دیا [٢٥] پھر رک گیا۔
یعنی تھوڑا سادے کر ہاتھ روک لیا۔ یا تھوڑی سی اطاعت کی اور پیچھے ہٹ گیا (اَکَدْیٰ) کے اصل معنی ہیں کہ زمین کھودتے کھودتے سخت پتھر آ جائے اور کھدائی ممکن نہ رہے بالآخر وہ کھدائی چھوڑ دے تو کہتے ہیں اَکَدْیٰ! یہیں سے اس کا استعمال اس شخص کے لیے کیا جانے لگا جو کسی کو کچھ دے لیکن پورا نہ دے، کوئی کام شروع کرے لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچائے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو آیات ولید بن مغیرہ کے متعلق نازل ہوئیں۔ ابو جہل سے پہلے ولید بن مغیرہ سردارانِ قریش کا رئیس تھا۔ اور اس کے سمجھدار ہونے میں کچھ شک نہیں تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے کافی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔ اور قریب تھا کہ ایمان لے آئے۔ اس کے ایک مشرک دوست کو جب اس صورت حال کاپتہ چلا تو اسے کہنے لگا جس آخرت سے تم ڈرتے ہو اس کا میں ذمہ لیتا ہوں۔ کہ اگر تمہیں عذاب ہو تو تمہاری سزا میں اپنے سر لے لوں گا بشرطیکہ تم مجھے اتنا مال دے دو۔ چنانچہ ولید بن مغیرہ اس کے چکمے میں آ گیا۔ اس کی بات کو قبول کرتے ہوئے طے شدہ مال کی ایک قسط بھی ادا کر دی لیکن بعد میں اس نے کسی نا معلوم وجہ کی بنا پر مزید مال دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔