عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ
یہ انہیں زبردست قوتوں والے (جبریل) نے سکھائی ہے
اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام فرشتہ ہے جو قوی اعضا کا مالک اور نہایت زو ر آور ہے۔ پیغمبر پر وحی لانے اور اسے سکھلانے والا یہی فرشتہ ہے۔ یعنی جبرائیل علیہ السلام وحی سکھلانے کے بعد آسمان کے کناروں پر جا کھڑے ہوئے۔ پھر زمین پر اترے اور آہستہ آہستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہوئے۔ حدیث میں ہے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی بند رہنے کا تذکرہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بار میں نے (راستہ میں) چلتے چلتے آسمان سے ایک آاوز سنی نگاہ اٹھائی تو آسمان کی طرف اسی فرشتے کو دیکھا جو حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ وہ زمین و آسمان کے درمیان ایک کرسی پر (معلق) تھا میں اتنا ڈر گیا کہ ڈر کے مارے زمین پر گر گیا، پھر میں اپنے گھر آیا اور گھر والوں سے کہا: ’’ مجھے کمبل اوڑھا دو، کمبل اوڑھا دو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں ’’یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ‘‘ سے ’’فَاھْجُرْ‘‘ تک۔ اس کے بعد وحی گرم ہو گئی لگاتار آنے لگی۔ (بخاری: ۴) کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے تھے کہ کوئی عجمی شخص اسے قرآن کی باتیں سکھا جاتا ہے۔ پھر یہ ہم کو سنا کر کہتا ہےکہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عجمی شخص نہیں بلکہ اسے ایک خوبیوں اور قوتوں کا مالک فرشتہ یہ قرآن سکھاتا ہے۔