يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ
وہاں وہ لپک لپک [١٨] کر ایک دوسرے سے جام شراب لیں گے جس میں نہ یا وہ گوئی [١٩] ہوگی اور نہ کوئی گناہ کا کام
جنت میں شراب کے دور: دنیا کی شراب میں کئی قباحتیں ہوتی ہیں مثلاً اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے اور بو نا خوشگوار، اس کا نشہ سر کو چڑھ جاتا ہے جس سے سر چکرانے لگ جاتا ہے اور بعض دفعہ درد بھی کرنے لگتا ہے۔ اس کا نشہ عقل پر چھا کر اس میں فتور پیدا کر دیتا ہے پھر اسی نشہ کی حالت میں انسان بعض دفعہ بکواس بکنے لگتا ہے بعض دفعہ کسی کی بے عزتی کر بیٹھتا ہے یا کوئی اور گناہ کا کام کر بیٹھتا ہے۔ جنت میں جنتی شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہوں گے۔ جس کے پینے سے سرور و کیف، لطف و بہار حاصل ہوتا ہے۔ لیکن بد زبانی اور بے ہودہ گوئی نہیں ہوتی، ہذیان نہیں بکتے۔ بے ہوش نہیں ہوتے۔ گناہ سے اور بک جھک سے دور ہوں گے۔ اسی طرح جنت کی شراب گندگیوں سے کوسوں دور ہے یہ رنگ میں سفید، پینے میں خوش ذائقہ، نہ سردرد ہو نہ کسی طرح ضرر پہنچائے۔ ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہوں گے۔