وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان لانے میں ان کی پیروی کی تو ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے اپنے عملوں سے کچھ بھی کم [١٥] نہ کریں گے ہر شخص اپنے ہی عملوں کے عوض گروی [١٦] ہے۔
صالح اولاد انمول تحفہ: یعنی جن مومنوں کی اولادیں بھی ایمان میں اپنے والدین کی پیروی کریں گی لیکن اعمال صالح میں اپنے بڑوں سے کم ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ اولاد پر یہ مہربانی فرمائیں گے کہ ان کو بھی ان کے والدین کے درجہ تک پہنچا کر جنت میں ان کے والدین کے ساتھ ملا دیں گے۔ تاکہ والدین اور اولاد جیسے دنیا میں اکٹھے رہ رہے تھے جنت میں بھی اکٹھے رہ سکیں۔ اور والدین اور اولاد دونوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ اس سلسلہ میں یہ نہ ہو گا کہ والدین کا کچھ درجہ کم کر دیا جائے اور اولاد کا کچھ بڑھا دیا جائے۔ اور دونوں کو ایک درمیانی درجہ پر جنت میں ملا دیا جائے۔ بلکہ اولاد کا درجہ ہی بڑھایا جائے گا والدین کا کم نہیں کیا جائے گا۔ یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی۔ اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ ہو۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعتاً بڑھا دے گا وہ دریافت کرتا ہے خدایا میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کی اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا۔ (مسند احمد: ۲/ ۵۰۹) ہر شخص اپنے عملوں کے عوض گروی ہے: یعنی ہر شخص پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتیں قرض ہیں اور اس کے بدلے انسان کا نفس اللہ کے ہاں بطور رہن یا مرہونہ چیز ہے۔ قرض کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ اس کے احکام کی تعمیل کرے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرے۔ جس شخص نے یہ قرض ادا کر دیا اس کا نفس عذاب جہنم سے آزاد ہو گیا اور بچ نکلا۔ اور جس نے یہ قرض ادا نہ کیا اس کا نفس پہلے ہی اللہ کے پاس رہن رکھا ہوا تھا۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ جنت محض اللہ کے فضل سے ملے گی دوسرے یہ کہ ایک شخص کی نیکی دوسرے کے نفس کو نہ رہا کرا سکے گی اور نہ عذاب جہنم سے بچا سکے گی۔