بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ
بلکہ [٢] یہ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ انہی میں سے ایک ڈرانے [٣] والا ان کے پاس آیا ہے۔ چنانچہ کافروں نے کہا کہ : یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔
ایسے شان والے قرآن کی جس بات یا جن باتوں پر قسم کھائی جا رہی ہے۔ وہ عبارت یہاں محذوف ہے۔ اور اسے مخاطبین یعنی کفار مکہ کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے ظاہر ہے کہ کفار مکہ کا سارا جھگڑا صرف دو باتوں پر تھا ایک تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے منکر تھے۔ دوسرے وہ آخرت کے منکر تھے اور قسم اس بات پر کھائی گئی کہ قرآن کے دلائل اور اس کی داخلی شہادتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ دونوں باتیں درست ہیں۔ قریش کا پہلا اعتراض کہ رسول انہی میں کیوں ہے: یہ لوگ اس بات پر متعجب ہیں کہ اللہ نے ڈرانے والا کیوں بھیج دیا۔ دوسرا تعجب انھیں اس بات پر ہے کہ ڈرانے والا غیر انسان یا فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ اور تیسرا تعجب انھیں اس بات پر تھا کہ ڈرانے والا ان ہی میں سے ایک شخص کو نبوت کے لیے چن لیا گیا ہے حالانکہ اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہے ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا تھا جس میں اسے مبعوث کیا جاتا تھا۔